الخلق عیال اللہ
مخلوق اللہ کی عیال(_زیر کفالت) ہیں
وعنه وعن عبد الله قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الخلق عيال الله فاحب الخلق إلى الله من احسن إلى عياله» . روى البيهقي الاحاديث الثلاثة في «شعب الإيمان»
ترجمہ
انس اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مخلوق اللہ کی عیال (زیر کفالت) ہے، اور مخلوق میں سے وہ شخص اللہ کو زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ “
امام بیہقی نے تینوں احادیث شعب الایمان میں بیان کی ہیں۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
جس کو خلق خدا سے جس قدر محبت اور الفت ہوگی وہ خالق کے بھی اتنا ہی قریب ہوگا جسکو یہ معلوم کرنا ہو کہ وہ خالق کائنات کے کتنا قریب ہے وہ یہ دیکھ لے کہ اسکو خلق خدا سے کتنی محبت ہے۔
دین کے بھی تین حصے ہیں ایک حکم یعنی شریعت دوسرا عقیدہ صحی کا ہونا اور اسکے بعد سب سے اھم اخلاق
آپکا اخلاق خلق اللہ کے ساتھ جیسا ہے آپ کا مقام اسی انداز میں رب کی بارگاہ میں ہے
داتا صاحب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ سارے کا سارا تصوف و طریقت روحانیت دو چیزوں میں ہے ایک سفر میں travelling اور دوسرے اخلاق میں ہے
اخلاقیات میں سے یہ بھی ہے کہ جب اپنے پیر بھائی سے ملو اسکا دیدار کرو تو اس طرح کرو گویا آپ اپنے مرشد کا دیدار کر رہے ہو کیونکہ انسان کا اس دنیا میں ایک مقصد ہوتا ہے مطلب نہیں ہوتا مطلب تو جانوں کا ہوتا ہے کہ کھانا کھانا چھینا اور نسل بڑھا نا اور انسانوں کا اس دنیا میں مقصد ہوتا ہے اور وہ مقصد اعلی ہوتا ہے کہ اس دنیا میں رضا الہی ایمان کی سلامتی کا حصول جو مقصد کو لیکر چلتا ہے اسکا اخلاق خود بخود مخلوق کے ساتھ اچھا ہوجاتا ہے
اخلاقیات یہ ہیں کہ لوگوں سے اختلاف رائے رکھو مگر ذاتی دشمنی حسد کینہ بغض نہ رکھو اگر یہ ساری چیزئیں مخلوق کے لئے بلا وجہ رکھے گا تو وہ سمجھ لے کہ اس نے روحانیت اور طریقت میں قدم ہی نہیں رکھا جو یہ برائی دور نہ کرے وہ اس راہ سے الگ ہوجائے اور اگر رہنا ہے تو اس برائیوں کو دور کردے تیاک دے دے
قد افلح من تذکیٰ جس نے اپنا تذکیہ کیا اس نے فلاح پائی
فلاح کیا ہے فلاح و سلامتی قبر میں نبی پاک کی محبت اور عشق کا غلاف ہے جس میں جو بھی چھپ جائے وہ قبر و آخرت میں سلامتی پاجاتا ہے
کسی یہودی نے مولا علی سے سوال کیا کے انسان کی حسن کی اتنی تعریف قران میں آئی مگر مرتا ہے تو کیڑے کھاجاتے ہیں یہ کیا بڑائی ہوئی آپ نے یہودی کو فرمایا یوسف علیہ السلام نے گندم کے دانوں کو انکی شاخوں کے ساتھ سات سال تک گوداموں میں رکھا وہ خراب نہیں ہوۓ کیونکہ جب گندم کو اسکی شاخوں سمیت رکھو تو وہ خراب نہیں ہوتے یہودی بولا میں انسان کا پوچھ رہا ہوں اور آپ گندم کے خوشوں کا بتارہے ہیں کہ انکو یوسف علیہ السلام نے غلاف گندم میں سات سال رکھا اور وہ خراب نہیں ہوۓ عجیب بات ہے مولا علی علیہ السلام نے فرمایا یہی تو تیرا جواب ہے ہر انسان کو کیڑے مکوڑے نہیں کھاتے نہ قبر کی مٹی کھاتی ہے اور وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو نبی پاک علیہ السلام کی محبت کے غلاف میں لپیٹ لیتے ہیں اس غلاف محبت میں داخل ہوجاتے ہیں وہ بھی کیڑے مکوڑوں اور قبر کی مٹی کی خوراک نہیں بنتے
اور اللہ کے نبی علیہ السلام کو جس پانی سے غسل دیا گیا وہ اللہ نے آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اور وہ بادل بنکر جہاں جہاں روۓ زمین پر برسا وہاں وہاں قیامت تک مسجدئیں بن گئیں بس بندہ مومن جو فلاح پانے والا صاحب اخلاق ہوتا ہے وہ اللہ رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں نیک جگہوں پر حاضری دیتا رہتا ہے جس میں مساجد سر فہرست ہیں وہ کوشش کرتا ہے دنیا کی ساری مساجد میں ایک بار ضرور حاضری دے الحمد للہ نبی پاک علیہ السلام کے آخری غسل کے بارش کے قطرے پوری دنیا پر جاکر برسے ہیں اور جہاں جہاں انکے نور کے قطرے گرے اور برسے ہیں وہاں وہاں انکی امت کا ایک ولی اپنی مزار میں آرام فرمارہا ہے اور اس نور اور ذکر کی برکت سے وہ جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنی ہوئی ہے اب مومن مسلمان پر ہے کے وہ نبی علیہ السلام کے غسل مبارک کے پانی سے بنی مساجد اور انکے نور سے بنے مزارات اولیاء سے کس قدر فیض حاصل کرتا ہے خلق خدا سے کس قدر پیار کرتا ہے اور اپنے اخلاق کو کس قدر بلندی پر لیجاکر قرب خدا میں بلند مرتبہ پاجاتا ہے۔
محمد عظیم شاہ یوسفی
قادری چشتی فریدی صابری
1446ھجری 2024 عیسوی
Comments