Skip to main content

اللہ کے ذکر کے فضائل

  اللہ کا ذکر کرنے کے فضائل القرآن الکریم یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا(41) ترجمہ: کنزالعرفان  سورہ احزاب 41 آیت اے ایمان والو! اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔ الحدیث 1 حضرت  عبداللہ   بن عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   سے روایت ہے ، نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا: ’’کسی شخص کاکوئی عمل ایسانہیں  جو  اللہ  تعالیٰ کے ذکر سے زیادہ (اس کے حق میں )  اللہ   تعالیٰ کے عذاب سے نجات دِلانے والاہو۔ لوگوں  نے عرض کی: کیا اللہ   عَزَّوَجَلَّ   کی راہ میں  جہاد بھی نہیں ؟ ارشادفرمایا:  اللہ   تعالیٰ کی راہ میں  جہاد بھی ذکر کے مقابلے میں زیادہ نجات کا باعث نہیں  مگر یہ کہ مجاہد اپنی تلوارسے (خدا کے دشمنوں  پر) اس قدر وار کرے کہ تلوار ٹوٹ جائے۔ 2 حضرت ابو درداء  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   سے روایت ہے، رسول کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا: ’’کیا م...

صدقے کے فضاٸل Benefits of Sadqa


صدقے کے فضاٸل

صدقہ دینا ایک نیک عمل ہے جو دینی اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے۔ اسلامی عقائد کے مطابق، صدقہ دینے کا فضیلت اور اثر بڑا ہوتا ہے۔ آپ کو دس اہم فضائل کی فہرست دینے جا رہا ہوں:


سوال کرنے والے کو جواب دینا:** صدقہ کیلئے دس دلائل میں پہلا وجہ یہ ہے کہ کوئی آپ سے سوال پوچھتا ہے اور آپ اسکا جواب دیتے ہیں۔ یہ صدقہ ہے۔


2. **شہرت میں :** صدقہ دینے سے دنیاوی شہرت میں اور آخروی شہرت میں زیادتی آتی ہے اور غرور کم ہوتا ہے۔


خفا نہ کرنا:** صدقہ کرنے سے صدقہ کرنے والے پر خفا نہیں کی جاتی لوگ اس سے ناراض نہیں ہوتے۔

ذاتی خوشی:** صدقہ دینے سے انسان کی ذاتی خوشی بڑھتی ہے۔

بیماری کی شفا:** صدقہ کرنے سے بیماری کی شفا حاصل ہو سکتی ہے۔

رزق میں برکت:** صدقہ کرنے سے رزق میں برکت آتی ہے۔

آخرت میں نجات:** صدقہ کرنے سے آخرت میں نجات ملتی ہے۔

نیکو کاری کی ترجیح:** صدقہ کرنے سے انسان کی نیکو کاری کی ترجیح بڑھتی ہے۔

دعاؤں کا قبول ہونا:** صدقہ کرنے سے انسان کی دعاؤں کا قبول ہونے کا امکان بڑھتا ہے۔

نفس کے نگرانی:** صدقہ کرنے سے اپنے نفس کی نگرانی کرنے کا موقع ملتا ہے۔

یہ تعلیمات اسلامی عقائد پر مبنی ہیں جو صدقہ دینے کے فضائل کو نمایاں کرتے ہیں۔


رومی کی کہانیوں میں ایک دلچسپ حکایت ہے جو صدقہ دینے کی اہمیت پر مبنی ہے۔ یہ کہانی آپ کو مشہور شاعر و فلسفی مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی معنوی سے ملتی ہے:

ایک دن ایک روزگاری میں رہنے والا شخص اپنے دوست کے پاس گیا اور اپنی مشکلات بیان کرنے لگا۔ وہ کہنے لگا کہ زندگی مشکلات سے بھرپور ہے اور وہ اپنے حالات کو نہیں سنبھال سکتا۔ اس دوست نے اُس سے کہا کہ تو مولانا رومی کے پاس جا کر اپنی مشکلات بیان کرے، شاید وہ تجھے راہ دکھا سکیں۔

شخص نے دوست کی رائے پر عمل کیا اور مولانا رومی کے پاس پہنچا۔ وہ اپنی پریشانیاں رومی کے سامنے رکھ دی، جب وہ پریشانیاں سن رہے تھے تو رومی نے ایک چھتری لے لی اور اسے اوپر اٹھایا۔

رومی نے کہا: "جب تو چھتری کے تحت ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟"

شخص نے جواب دیا: "میں خشک نہیں ہوتا، بارش سے محفوظ رہتا ہوں۔"

رومی نے مسکرا کر کہا: "وہی حال ہے جب تو صدقہ دیتا ہے، تو اپنی روزی کے امور کو اللہ کی حفاظت میں کر دیتا ہے۔"


Comments

Popular posts from this blog

SONs OF JOSEPH (HAZRAT YOUSUF allehe salam

Israel and the Lost Tribes: In order to find out who these Muslims Bani-Israel from Khurasan are, it would be important to critically examine the history of Israelites. Prophet Jacob (AS), or Hazrat Yaqoob (AS) in Urdu, was the son of Prophet Isaac (AS) or Ishaq in Urdu and grandson of Prophet Abraham (AS). He was popularly known by his alternate name “Israel”. All of his children were subsequently called Bani-Israel or Israelites i.e. the descendants of Israel (Jacob). Prophet Jacob (AS) had twelve sons, one of which was Prophet Joseph (AS) or Hazrat Yousuf (AS) in Urdu and Prophet Joseph (AS) had two sons. The Bani-Israel, consequently, are divided into thirteen tribes i.e. eleven from Prophet Jacob (AS) and two from Prophet Joseph (AS). The names of these sons of Jacob (AS) and Joseph (AS), which are in turn the names of the tribes of Bani-Israel, are: 1. Reuben 2. Simeon 3. Judah 4. Issachar 5. Zebulun 6. Dan 7. Naphtali 8. Gad 9. Asher 10. Levi 11. Benjamin 1...

شب برات کے بعد مغرب کے چھ نوافل

  شب برات کے نماز مغرب کے چھ نوافل   اولیا ء کرام  رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام  سے ہے کہ مغرب کے  فرض وسنَّت وغیرہ کے  بعد  چھ رَکعت نفل (نَفْ۔لْ)   دو دو رَکعت کر کے  ادا کئے جا ئیں ۔  پہلی  دو رَکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے:   ’’  یا اللہ  عَزَّوَجَلَّ !ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما۔ ‘‘  دوسری  دو رَکعتوں میں  یہ نیت فرمایئے:   ’’   یا   اللہ  عَزَّوَجَلَّ !ان دو رَکعتوں کی برکت سے بلاؤں سے میری حفاظت فرما۔ ‘‘   تیسری  دو رَکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے:   ’’   یا اللہ  عَزَّوَجَلَّ !ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔ ‘‘   ان  6 رَکعتوں میں   سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے  بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں ،  چاہیں توہر رَکعت  (رَکْ ۔عَت)   میں   سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے  بعد تین تین بار   سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص   پڑھ لیجئے۔...

ذکر نفی اثبات لا الہ الا اللہ خفی کا طریقہ

توجہ و خیال کی زبان سے لَاأِلٰہَ اِلآَااللّٰہُ کے ذکر کو نفی و اثبات کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سالک پہلے اپنے باطن کو ہر قسم کے خیالات ماسویٰ اللہ سے پاک و صاف کرے، اس کے بعد اپنے سانس کو ناف کے نیچے روکے اور محض خیال کی زبان سے کلمہ ”لا“ کو ناف سے لیکر اپنے دماغ تک لے جائے، پھر لفظ ”اِلٰہَ“ کو دماغ سے دائیں کندھے کی طرف نیچے لے آئے اور کلمہ ”اِلاَّ اللہُ“ کو پانچوں لطائف عالم امر میں سے گذارکر قوت خیال سے دل پر اس قدر ضرب لگائے کہ ذکر کا اثر تمام لطائف میں پہنچ جائے۔ اس طرح ایک ہی سانس میں چند مرتبہ ذکرکرنے کے بعد سانس چھوڑتے ہوئے خیال سے ”مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ“ کہے۔ ذکر نفی و اثبات کے وقت کلمہ طیبہ کی معنیٰ کہ سوائے ذات پاک کے کوئی اور مقصود و معبود نہیں، کا خیال رکھنا اس سبق کے لئے شرط ہے۔ کلمہ ”لا“ ادا کرتے وقت اپنی ذات اور تمام موجودات کی نفی کرے اور ”اِلَّا اللّٰہُ“ کہتے وقت ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کا اثبات کرے۔ فائدہ: ذکر نفی و اثبات میں طاق عدد کی رعایت کرنا بہت ہی مفید ہے۔ اس طور پر کہ سالک ایک ہی سانس میں پہلے تین بار پھر پانچ بار اس طریقہ پر یہ مشق بڑھاتا جائے...