نماز حقیقی کیا ہے
اصل نماز حقیقی کا مطلب کیا ہے یہ کیا ہے کیوں ہے
نماز کی اہمیت سب جانتے ہیں اس لیے بیان نہیں کروں گا
نمازِ زاھداں سجدہ سجود است
نمازِ عاشقاں ترکِ وجود است
نماز کا مطلب اگر ترکِ وجود ہے تو پھر سجدہ سجود کیا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ نماز تو انبیاء نے بھی پڑھی اولیاء نے بھی طریقِ نماز سجدہ سجود ہے مگر حاصل ترکِ وجود ہےنماز یہ کہ اس کی یاد میں محو ہو جایا جائے
نماز قائم کرو میری یاد کے لیے
جب تک بندہ اس یاد کے مقام پر رہتا ہے تو وہ نماز پڑھنے کے بعد بھی ہر وقت اس کی یاد میں رہنے کی کوشش کرتا ہےا
نماز یہی ہے کہ اس کے حضور اس کی یاد میں محو اور غرق ہو جانا اس انتہا کو پہنچ جانا کہ خود کو بھول جاٸے
حضوری قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی مطلب قبول نہیں ہوتی۔
مولا علی کرم اللہ وجہہ کو جب تیر لگتا ہے تو فرماتے ہیں کہ جب میں نماز میں ہوں تو نکال لینا۔
واقعہِ کربلا میں امام عالی مقام لڑتے لڑتے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور شہید ہوجاتے ہیں
بخدا خبر ندارم چو نماز می گزرام
کہ تمام شد رکوعے کہ امام شد فلانے
جب میں نماز پڑھتا ہوں خدا کی قسم مجھے
یہ نہیں معلوم رہتا کہ رکوع پورا ہوگیا یا امام کون ہے
نماز یا سجدہ یہ نہیں کہ دو چار ٹکریں مار لیں یا جا کے سیدھے کھڑے ہو گئے
بلکہ رب کے حضور سجدے میں جا کر خود کو ترک کر دینا مقامِ نیستی پہ لے آنا یہ اعتراف کر لینا کہ میں نہیں ہوں بس تو ہی تو ہے تو سجدے میں ہو لیکن تو نہ ہو اور جب تو نہ ہوگا وہ ہوگا
نماز میں احسان کے بارے میں جب جبراٸیل علیہ السلام نے سوال کیا کے احسان کیا ہے تو بنی پاک علیہ السلام نے فرمایا کے تو خدا کی عبادت اس طرح کرتو اس کو دیکھ رہا اگر اس طرح نہیں کرسکتا تو یہ کر کہ خدا تجھکو دیکھ رہا ہے یہ پوری کی پوری تصوف بیا ن کر دیا گیا کہ جب بندہ امید اور الفت اور محبت سے اسے دیکھے گا تو مشاھدہ حق حاصل ہوگا اور جب خدا اسکو دیکھ رہا ہے تو اس سے خوف خدا پیدا ہوگا اور یہ دونوں ہی تصوف کی اصل ہیں اور بندہ ان دونوں کے بیچ ہے یعنی خوف اور رجا ٕ محبت الفت سے دیدار مشاھدہ حاصل ہوگا اور خوف سے اھل تقوی ہوگا۔
اسکو ہی معراج مومن کہتے ہیں
نماز مومن کی معراج ہے
دید کی گر تلاش ہے سر کو جھکا نماز میں
دل سے خودی کو دور کر خود کو مٹا نماز میں
آئے گا تجھ کو تب نظر روئے خدا نماز میں
پہلے حسین کی طرح سر کو کٹا نماز میں
معراج ترکِ وجود ہے جس کا ابتداٸی طریق سجدہ سجود ہے لیکن ادب محبت اور شوق کے ساتھ
جب سجدے میں جائے تو وجود خود کو ترک کر دے
لوکی پنج ویلے
عاشق ہر ویلے
عوام کو یہ مقام حاصل نہیں
ان کے لیے نماز کا مطلب سجدہ کرنا ہے
جب کہ راہِ سلوک کے مسافر کے لیے قلبی حضوری لازم ہے اور وہ جب حضوری کے ساتھ نماز میں ادا کرتا ہے
وہ خود کو ترک کر لیتا ہے مقامِ نیستی میں داخل ہوجاتا ہے
اس کو دیدار اور معراج عطا ہو جاتی ہے
جب یہ کیفیت قاٸم داٸم ہوجاتی ہے تو یہ کیفیت ۵ وقت تک محدود نہیں رہتی ہر وقت ہوجاتی ہے
وہ قیام میں نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتا ہے ، سجدے میں نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتا ہے
گویا ظاہری نماز میں نہیں ہوتا پرنماز عشق میں ہوتا ہے نمازِ وقتی وقت پر پڑھتا ہے اور نمازِ دائمی نمازِ عشق میں ہر وقت مشغول رہتا ہے
جیسے نماز میں ہر شے کو ترک کر کے یکسو ہو کر اس کے دربار میں حاضر ہو نا ہوتا ہے اور پھر غرق ہوجانا چاہٸے بس اسی طرح عاشق کیفِ استغراق میں ہر وقت ہوتا ہے ایسے اسے نمازِ عشق نمازِ دائمی حاصل ہو جاتی ہے
کسی لمحے حق سے غافل نہیں ہوتا ہر وقت محوِ دیدارِ یار ہوتا ہے
تو وہ جو دم غافل سو دم کافر پہ پورا اتر جاتا ہے
لیکن نمازِ وقتی کے ساتھ ساتھ
نمازِ عشق کوئی اور شے نہیں
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
طالب دعا
محمد عظیم شاہ یوسفی قادری چشتی صابری
١٤٤٤ hj 2022
Comments