Skip to main content

نیکیوں کا خزانہ جنت کا حصول

              ثواب کے خزانے جنت کا داخلہ   قیامت تک فرشتے نیکیاں لکھتے رہیں گے قیامت میں اللہ کے ولیوں کی جماعت کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا اور بے غم بے خوف جنت میں داخل ہوگا  حضرت علامہ عبد الرحمن صفوری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو اپنی مایہ ناز تصنیف نزھتہ المجالس میں نقل کیا ہے اور اسکے علاوہ صلحاء امت اسکو بیان کرتے چلے آئیں ہیں  عمل کچھ اس طرح ہے کہ جو مسلمان نماز فجر کے بعد جب ایک گنٹھہ گزر جائے اسکو نماز چاشت کا وقت کہتے ہیں فجر کی نماز کا وقت ختم ہونے کے 20 منٹ بعد نماز اشراق پڑھی جاتی ہے اور کم و بیش ایک ڈیڑھ گنٹھے بعد چاشت پڑھی جاتی ہے بہرحال جب چاشت کا وقت ہوجائے مثلا اگر صبح سورج 7 بجے نکل گیا اور فجر کا ٹائم ختم ہوگیا اسکے ایک گنٹھہ بعد 8 بجے چاشت کی نماز کا وقت شروع ہوگا  وضو کرے اور بارہ رکعت نماز چاشت کی نیت کرے اور دو دو رکعت کے ساتھ بارہ رکعات پڑھے اور ہر رکعت میں سورة الفاتحہ  کے  بعد ایک بار آیتہ  الکرسی اور تین بار سورة الاخلاص پڑھے اور بعد نماز دعا کرے ۔ اسکی فضیلت یہ بیان کی گئی کہ اس عمل کرنے والے کے پاس ساتوں آسمانوں سے فرشتے اترتے ہیں ہر آسمان سے ستر ہزار فرشتے نا

AURA OF HUMENBEING



Aura

 برسوں  مادہ پرست سائنسدان انسان کے  باطنی تشخص کا یہ کہہ کر انکار کرتے  رہے  کہ انسان محض مادی جسم ہے  جس میں  کہیں  روح کی ضرورت نہیں اور آج سائنسدان خود انسانی باطن کو دریافت کر بیٹھے  ہیں اور انسان کے  اندر موجود اس پیچیدہ نظام کو دیکھ کر حیران ہیں۔ لہذا

۱۹۳۰ء  کی دہائی میں  روس میں  کر لین (Karlain)نامی الیکٹریشن نے  اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے  پہلی دفعہ انسان کے  باطنی وجود  "AURA"  کی تصویر کشی کر لی۔ اس (Karlain Photography) سے  اس لطیف وجود "AURA" کو باقاعدہ طور پر دیکھ لیا گیا۔ یہ مختلف رنگوں  پر مشتمل لہروں  کا ہالہ ایک ہیولے  کی طرح لطیف جسم تھا۔ یہ لطیف جسم بالکل انسان کے  مادی جسم سے  مشابہت رکھتا ہے۔ یہ جسمانی و ذہنی کیفیات کے  مطابق مختلف رنگ و ارتعاش منعکس کرتا ہے۔ یہ  لطیف جسم AURAانسانی جسم سے  چند انچ اوپر مادی جسم سے  متصل ہوتا ہے۔
انسانی جسم کے  تمام تر تقاضے  اسی روشنی کے  جسم میں  پیدا ہوتے  ہیں۔ خون کی طرح ہر انسان کا AURA   بھی مختلف ہوتا ہے۔
 سبٹل باڈیز SUBTLE BODIESAURA
"AURA"کے  اندر مزید سات اجسامSUBTLE BODIES   کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ ہر سات اجسام کے  مختلف لیول اور سب لیول ہوتے  ہیں۔
چکراز  CHAKRAS         
چکراز  CHAKRAS  وہ پوائنٹس ہیں  جن سے  توانائی ہمارے  جسم میں  داخل اور خارج ہوتی ہے  یہ خلائی سطح  (ETHERIC LEVEL)  پر موجود ہوتے  ہیں۔ جسے  ہم دوہرا جسم بھی کہتے  ہیں  کیونکہ یہ بالکل ہمارے  مادی جسم کی شکل اختیا ر کر لیتے  ہیں۔ چکراز جب صحیح کام کر رہے  ہوں  تو پہیے  کی طرح گھومتے  رہتے  ہیں۔ سات  " 7 "  بنیادی چکراز ہیں  جو کہ جسم کے  اگلے اور پچھلے  حصے  میں  موجود ہوتے  ہیں اور اندر کی طرف مڑ رہے  ہوتے  ہیں۔ اس کے  علاوہ AURA  میں  مزید چکراز ہوتے  ہیں  جو کہ جسم سے  زیادہ فاصلے  پر ہوتے  ہیں۔
AURA  کی دریافت تو آج  ۱۹۳۰ء  میں  ہوئی ہے  لیکن تمام ادوار میں  انسان کے  اس باطنی تشخص کا تذکرہ ہوتا آیا ہے  بلکہ AURA   سے  متعلق ماضی کی معلومات  آج کی جدید تحقیقات کے  مقابلے  میں  زیادہ مستند معلومات ہیں مثلاً
قدیم ادوار میں   یونانی، رومی، ہندو اور عیسائی اقوام میں  ان کی مذہبی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں  میں  ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا جسے  انگریزی میں  ہالو HALO اور قدیم یونانی اور لاطینی زبان میں  اوراAURA  اور ایرولا AUREOLA  کہا جاتا تھا۔ اور آج اسی ماضی کی مناسبت سے  ہی نئے  دریافت شدہ لطیف جسم کا نام AURA   رکھا گیا ہے۔  افلاطون کی تحریروں  میں  بھی موت کے  واقعات میں   AURA کا تذکرہ موجود ہے  ارسطو نے  اسے  روح حیوانی کہا جب کہ ہزاروں  سال پہلے  کے  فراعنہ مصر  AURA کو  بع کہتے  تھے۔  تبتی  لاما  ہوا میں  اڑنے اور اپنے   AURA کو جسم سے  الگ کرنے  کی صلاحیت بھی رکھتے  تھے۔ جب کہ مسلمان، یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں  میں  ایسے  روحانی ماہرین پائے  جاتے  تھے  جو نہ صرف اپنے   AURA کو جسم سے  الگ کر لیتے  تھے  بلکہ اس سے  کام بھی لیتے  تھے  ہوا میں  اڑتے  پلک جھپکتے  میں  ہزاروں  میل کے  فاصلے  طے  کر لیتے اور بہت سے  روحانی کرتب دکھاتے  تھے۔
مسلمانوں  کی تحریروں میں  بھی جا بجا  AURA  کا تذکرہ اور اس کی خصوصیات کا ذکر ملتا ہے۔ یہ تذکرے  آج کی تحقیقات سے  سو فیصد مماثلت رکھتے  ہیں۔ مسلمانوں  نے   AURA  کو دیگر ناموں  سے  پکارا ہے۔ مثلاً  نسمہ، جسم مثالی، روح حیوانی، روح ہوائی، روح یقظہ وغیرہ وغیرہ۔
قدیم چینیوں  میں  بھی  AURA کا تصور پایا جاتا تھا وہ اسے   P.O کہتے  تھے۔ جب کہ یہودیوں  کے  کام میں  اسے Nefesh   کہا گیا ہے۔
اگرچہ  AURA  کا تذکرہ ہزاروں  برس سے  ہو رہا تھا لیکن عرصہ دراز تک مادی سائنسدان انسان کے  باطن کو غیر مرئی اور غیر اہم کہہ کر جھٹلاتے  آ رہے  تھے  پھر کچھ روحانی کرتبوں  سے  متاثر ہو کر کچھ سائنسدان اسے  الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ (E.M.F) ہیومن انرجی فیلڈ اور بائیو انرجی کے  نام سے  شناخت کرنے  لگے اور بلآخر سائنسدانوں  نے   ۱۹۳۰ء  میں  اس کی تصویر کشی بھی کر لی۔
آج  AURA  پر تحقیق و تحریر کے  در  وا  ہیں  مغربی ممالک میں  اس پر لیبارٹریز میں  کام ہو رہا ہے  کتابیں  لکھی جا رہی ہیں۔ بلکہ وہ لوگ تو اس  AURA  کو کام میں  لے  کر جاسوسی کا کام بھی لے  رہے  ہیں اور اس کے  ذریعے  مریخ تک جا پہنچے۔  مثلاً
امریکہ کا  CIA کا خفیہ جاسوسی کا ادارہ (Sun Strcak/Stragate)  روحانی صلاحیتوں  کے  مالک جاسوسوں  کو جدید سائنسی طریقوں  سے  روحانی تربیت دے  کر روحانی سراغ رسانی کا کام لیتا ہے۔ اور یہ روحانی تربیت یافتہ افراد روحانی وجود  AURA  کو استعمال میں  لا کر دشمن کے  خفیہ منصوبوں  کا گھر بیٹھے  سراغ لگاتے  ہیں۔ درحقیقت یہ دشمن کے  ہتھیاروں  کو گھر بیٹھے  ناکارہ بناسکتے  ہیں۔ یہ حکمرانوں  کے  دماغوں  کو گھر بیٹھے  کنٹرول کر سکتے  ہیں۔ یہ گھر بیٹھے  اپنے  دشمن کو شکست دے  سکتے  ہیں۔

آج دنیا بھر میں  انسان کے  باطنی رخ پر نہ صرف روحانی بلکہ سائنسی تجربات ہو رہے  ہیں اور سائنسدان ایٹم کی طرح انسان کے  اندر جھانک کر اس وسیع و عریض دنیا کو حیرت سے  دیکھ رہے  ہیں۔ لیکن ابھی سمجھ نہیں  پا رہے۔ اسی وجہ سے  چکراز اور  آواگون   (Reincarnation)میں  مماثلت تلاش کر رہے  ہیں۔ حالانکہ ان دونوں  میں  کوئی مماثلت نہیں۔ جب کہ کچھ لوگ AURA یا لطیف اجسام کو روح یا روح کا حصہ بھی کہتے  ہیں
یہ  AURA  کیا ہے ؟  مادی جسم سے  اس کا کیا اور کیسا ربط ہے ؟  یہ سوالات جوں  کے  توں  حل طلب ہیں۔ جب کہ اس کتاب میں  نئے  نظریات کے  ذریعے  ہم نے  ان تمام سوالوں  کے  تفصیلاً جواب دے  دیئے  ہیں۔ لہذا یہاں  اس
۱۔ AURAکی اصل شناخت قائم کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے
۲۔ AURAنفس ہے۔ AURA کا اصل نام نفس ہے۔
جب کہ آج جدید محقق AURA اور نفس پر الگ الگ  حیثیتوں  میں  کام کر رہے  ہیں۔ نفس پر اس کی مفروضہ حیثیت میں  کام ہو رہا ہے  جب کہ AURA پر شناخت کے  بغیر انفرادی تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اور علمی میدان میں  اتنی بڑی بڑی اور واشگاف غلطیاں  کی جا رہی ہیں  جس کی وجہ لا علمی ہے  پختہ تحقیق کی ضرورت ہے  ہر علمی موضوع کو۔ اور اس بات کو سمجھنے  کی کوشش کیجیے  کہ ہر وجود کا اپنا منفرد نام اور منفرد شناخت ہے۔ اور یہ روح یا نفس جیسے  نام مذہبی نام ہیں۔ ماضی میں  ہر قوم نے  ان ناموں  کو اپنی زبان میں  ادا کیا جس کے  نتیجے  میں  روح و نفس و جسم کی ایسی الجھن پیدا ہوئی جو آج تک نہیں  سلجھی اور انسان ایک معمہ بن کر رہ گیا تھا۔
اس کتاب میں  برسوں  کی مسلسل تحقیق و غور و فکر کے  بعد میں  نے  یہ صدیوں  کے  مسائل حل کئے  ہیں   روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کی ہے۔ لہذا اب ان  صدیوں  کی غلطیوں  کو درست فرما لیں اور نوٹ کر لیں کہ
۲۔ AURAنفس ہے۔ AURA کا اصل نام نفس ہے۔
۳۔ لہذا نفس کی دیگر مفروضہ تعریفیں  درست نہیں، نفس کوئی مفروضہ خواہش نہیں  بلکہ ایک لطیف جسم ہے  جسے  آج AURAکا نام دے  دیا گیا ہے۔
۴۔ لہذا یہاں  یہ بھی ثابت ہو گیا کہ AURAروح نہیں  ہے  بلکہ جسم ہے ، نفس کا جسم
۵۔ AURAروشنی کا جسم ہے۔
۶۔ AURAجسمانی حرکت و عمل کا سبب ہے  یہ جسم کا فیول ہے۔
۷۔ AURAاگرچہ جسمانی حر کت و عمل کا سبب ہے اور اس کی غیر موجودگی سے  جسم حر کت و عمل سے  محروم ہو جاتا ہے  لیکن اس کے  با وجود
AURAجسم کی زندگی نہیں  ہے  جیسا کہ عموماً تصور کیا جاتا ہے۔ AURAکی غیر موجودگی سے  جسم موت کا شکار نہیں  ہوتا۔
جسم کی زندگی و موت کا سبب روح ہے۔ جو نفس سے  منفرد شے  ہے
۸۔ AURAانسان کے  وسیع و عریض باطن کا ایک جز ایک جسم ہے۔ لیکن یہ مادی جسم کی طرح باطن کا بنیادی جسم ہے  اگرچہ باطن کے  دیگر اجسام بھی نفس ہیں  AURA نفس کا ایک جسم ہے  لیکن یہی بنیادی نفس بھی ہے۔ یعنی نفس کے  اس جسم کا نام بھی نفس ہی ہے۔ قصہ مختصر
AURA دراصل نفس ہے۔



Comments

Popular posts from this blog

SONs OF JOSEPH (HAZRAT YOUSUF allehe salam

Israel and the Lost Tribes: In order to find out who these Muslims Bani-Israel from Khurasan are, it would be important to critically examine the history of Israelites. Prophet Jacob (AS), or Hazrat Yaqoob (AS) in Urdu, was the son of Prophet Isaac (AS) or Ishaq in Urdu and grandson of Prophet Abraham (AS). He was popularly known by his alternate name “Israel”. All of his children were subsequently called Bani-Israel or Israelites i.e. the descendants of Israel (Jacob). Prophet Jacob (AS) had twelve sons, one of which was Prophet Joseph (AS) or Hazrat Yousuf (AS) in Urdu and Prophet Joseph (AS) had two sons. The Bani-Israel, consequently, are divided into thirteen tribes i.e. eleven from Prophet Jacob (AS) and two from Prophet Joseph (AS). The names of these sons of Jacob (AS) and Joseph (AS), which are in turn the names of the tribes of Bani-Israel, are: 1. Reuben 2. Simeon 3. Judah 4. Issachar 5. Zebulun 6. Dan 7. Naphtali 8. Gad 9. Asher 10. Levi 11. Benjamin 1

Anbiya KAram ka Ansaab Sajra

شب برات کے بعد مغرب کے چھ نوافل

  شب برات کے نماز مغرب کے چھ نوافل   اولیا ء کرام  رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام  سے ہے کہ مغرب کے  فرض وسنَّت وغیرہ کے  بعد  چھ رَکعت نفل (نَفْ۔لْ)   دو دو رَکعت کر کے  ادا کئے جا ئیں ۔  پہلی  دو رَکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے:   ’’  یا اللہ  عَزَّوَجَلَّ !ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما۔ ‘‘  دوسری  دو رَکعتوں میں  یہ نیت فرمایئے:   ’’   یا   اللہ  عَزَّوَجَلَّ !ان دو رَکعتوں کی برکت سے بلاؤں سے میری حفاظت فرما۔ ‘‘   تیسری  دو رَکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے:   ’’   یا اللہ  عَزَّوَجَلَّ !ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔ ‘‘   ان  6 رَکعتوں میں   سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے  بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں ،  چاہیں توہر رَکعت  (رَکْ ۔عَت)   میں   سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے  بعد تین تین بار   سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص   پڑھ لیجئے۔ ہر دو رَکعت کے  بعداِکیس بار  قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ  (پوری سورت)   یا ایک بار   سورۂ یٰسٓ شریف پڑھئے بلکہ ہو سکے  تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلند آواز سے   یٰسٓ شریف پڑھیں اور دوسر